Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

" پانی پی لو تم ۔۔۔۔" وہ اسے گلاس تھما کر باہر نکل گیا۔

کہیں ایوب نے ان باتوں سے کچھ غلط تو نہیں سمجھ لیا۔۔۔ نہیں! فریدون میرا بھائی ہے۔ دوست ہے۔ وہ فرش پر بیٹھ کر رونے لگی۔

" جب انسان کے پاس اپنی چیز آ جاۓ تو وہ ادھار کی چیز یا مانگے کی چیز واپس کر دیتا ہے۔" ایک برچھی سی اتر گئی دل میں۔۔۔۔

" اپکا فریدون بچ جاۓ گا ۔" اس کے کردار پر کیچڑ اچھالی گئی۔

" نہ ماں کا پتا نہ باپ کا۔" یہ گالی تھی۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی۔

وہ جو کوئی بھی تھے یقینا کوئی راستہ نہیں ہو گا ان کے پاس۔۔۔۔ اور میری ماں یقینا بہت سلیقہ شعار اور با حیا عورت ہو گی اسی لیے تو میں اتنے سارے کام خوشی سے کرتی ہوں اورمحبت کرنے کے باوجود کبھی ایوب کو بتا نہیں سکی۔ انہیں کوئی حق نہیں میرے ماں باپ کو گالی دینے کا۔ اگر ان کی جگہ انہوں نے مجھے پالا ہے تو صلہ دے دیا میں نے ان لوگوں کی چاکری کر کے ۔۔۔۔ ایک فیصلہ کر کے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

چند چیزیں ایک بیگ میں ڈال کر وہ نیچے آئی تھی' کچھ سوچ کر وہ پہلے ایوب کے کمرے کی طرف بڑھی پھر فریدون کے کمرے کا دروازہ بجایا۔ دروازہ کھلا تھا وہ اندر داخل ہوئی ' وہ ہمیشہ کی طرح موبائل پہ مصروف تھا۔

" کیا ہوا صبا؟"

" فریدونمجھے تھوڑے پیسے ادھار چاہیے ۔" اس کی بات پر وہ سیدھا ہو کر بیٹھا۔

" خیریت۔۔۔؟" اس کے لحجے میں حیرت تھی۔ کبھی اس نے ایسا مطالبہ نہ کیا تھا۔

" تم مجھے دے رہے ہو یا نہیں۔۔۔۔؟"

" ہاں دے رہا ہوں! کتنے۔۔۔۔؟" اس نے والٹ نکالا۔

" پانچ سو"

" پانچ سو ! کیا کرو گی؟ اس کی چھٹی حس خطرے کی گھنٹی بجا رہی تھی۔

" یہاں سے یتیم خانے یا دار الامان کا کرایہ۔" وہ نوٹ پکڑتے ہوۓ بولی۔

" کیا۔۔۔۔" وہ کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا۔

" تم نے کہا تھا نہ کہ کشتیاں جلا کر جنگ کرو۔۔۔ افطاری کے ٹائم ابو کی بیوی نے بہت غلط باتیں کیں' مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے تمہارے بارے میں جو غلط بات کی ایوب نے اس پر یقین کر لیا ہے تو پھر میں کس کے لیے کشتیاں جلاؤں؟ انہوں نے گالی دی مجھےمیرے ماں باپ کی۔۔۔۔ اور تم نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا۔۔۔ ابو نے۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ادھار کی چیز ۔۔۔ میں اسی لیے۔۔۔۔ واپس۔۔۔۔۔"

" اور ایوب کا کیا ہو گا؟ مجھے لگتا ہے کہ بھائی بھی تم سے محبت کرتا ہے۔" فریدون نے مڑ کر واش روم کے بند دروازے کو دیکھا۔

" وہم ہے تمہارا۔۔۔۔کبھی نہیں کہا انہوں نے ایسا اور اب بھی انوشے کے حوالے سے گھر میں بات ہو رہی ہے تو خاموش ہیں' مخالفت نہیں کی انہوں نے۔" شکوہ زبان سے پھسلا' باہر شور سا ہوا۔

   0
0 Comments